ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستانیوں پر امریکی سفری پابندیوں کے حوالے سے باتوں کو قیاس آرائیاں قرار دیدیا

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان — فوٹو: دفترخارجہ

اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستانیوں پر امریکی سفری پابندیوں کے حوالے سے باتوں کو قیاس آرائیاں قرار دیدیا۔ 

تفصیلات کے مطابق دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی شہریوں کے داخلے پر پابندی کی باتیں محض میڈیا پر قیاس آرائیاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا میں پاکستانی شہریوں کے داخلے پر پابندی کے حوالے سےکچھ بھی آفیشل نہیں ہے۔

 

خیال رہے کہ گزشتہ روز خبریں زیرِگردش تھیں کہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک کی سلامتی اور امن و امان کو برقرار رکھنے کی خاطر نئی سفری پالیسیاں تشکیل دی گئی ہیں جن کا اطلاق اگلے ہفتے سے ہونے جارہا ہے۔ جس کے بعد افغانستان اور پاکستان کے شہریوں کو امریکا میں داخلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مزید ممالک بھی اس سفری پابندی سے متاثر ملکوں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں تاہم ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کون سے ممالک ہوں گے۔

یاد رہے کہ یہ اقدام  صدر ٹرمپ کی 7 اکثریتی مسلم ممالک سے آنے والے مسافروں پر ان کی پہلی مدت صدارت کے دوران پابندی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ ایک ایسی پالیسی تھی جو 2018 میں سپریم کورٹ کی جانب سے برقرار رکھنے سے قبل کئی مرتبہ تکرار سے گزری تھی۔

ٹرمپ کے جانے کے بعد سابق صدر جو بائیڈن نےاس پالسیی کو منسوخ کردیا تھا جس کو ٹرمپ ایک مرتبہ پھر لاگو کرنے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے متوقع نئی پابندی ان ہزاروں افغان شہریوں کو متاثر کر سکتی ہے جنہیں امریکا میں پناہ گزینوں کے طور پر یا خصوصی تارکین وطن کے ویزوں پر دوبارہ آباد ہونے کے لیے کلیئر کیا گیا تھا۔

کیونکہ ان افغان شہریوں کو اپنے ملک میں 20 سالہ جنگ کے دوران امریکا کے لیے کام کرنے پر طالبان کے ہاتھوں انتقام کا خطرہ ہے۔

میڈٰیا رپورٹس میں مزید بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں قومی سلامتی کے خطرات کا پتا لگانے کے لیے امریکا میں داخلے کے خواہشمند کسی بھی غیر ملکی کی سیکیورٹی جانچ کی ضرورت ہے۔

اس حکم نے کابینہ کے متعدد ارکان کو 12 مارچ تک ان ممالک کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، جہاں سے سفر جزوی طور پر یا مکمل طور پر معطل کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی جانچ اور اسکریننگ کی معلومات بہت کم یا ناکافی ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ افغانستان کو سفری پابندی کے لیے تجویز کردہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے گا جبکہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی جائے گی۔

اسٹیٹ، جسٹس اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکموں اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے، جن کے رہنما اس اقدام کی نگرانی کر رہے ہیں، اس ممکنہ سفری پابندی کے حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا فوری جواب نہیں دیا ہے۔

افغان ایویک ہیش ٹیگ کے سربراہ، ایک اتحاد جو افغانوں کے انخلا اور آبادکاری کو امریکی حکومت کے ساتھ مربوط کرتاہے، شان وین ڈیور نے ان لوگوں پر جلد از جلد امریکا سفر کرنے پر زور دیا ہے جو امریکی ویزے کے حامل ہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، لیکن امریکی حکومت کے متعدد ذرائع بتاتے ہیں کہ اگلے ہفتے سے ایک نئی سفری پابندی کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ان افغان ویزا ہولڈرز پر خاصا اثر پڑ سکتا ہے جو امریکا منتقلی کا انتظار کر رہے ہیں، تقریباً 2 لاکھ افغان ایسے ہیں جن کی امریکا میں آبادکاری کی منظوری دی گئی ہے یا جن کے پاس امریکا میں پناہ گزین اور خصوصی امیگرنٹ ویزا کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔

یہ افغان شہری 20 جنوری سے افغانستان اور تقریباً 90 دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں، ان میں سے تقریباً 20 ہزار پاکستان میں بھی پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ صدر ٹرمپ نے پناہ گزینوں کے داخلے اور ان کی پروازوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے والی غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے منجمد کردیا ہے۔

 

 

جدید تر اس سے پرانی