اسلام آباد (آئی آر کے نیوز): سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)عمران خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی پٹیشن دائر کی ہے جس میں دوسرے صوبوں سے ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی درخواست میں الزام لگایا گیا کہ تبادلے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانے اور سیاسی فائدے کے لیے عدلیہ میں جوڑ توڑ کرنے کی دانستہ کوشش ہیں۔
عمران خان کی قانونی ٹیم کی طرف سے جمع کرائی گئی درخواست میں فروری میں صوبائی ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 3 ججز کے تبادلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
تبادلے کیے جانے والے ججوں میں بالترتیب لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور محمد آصف شامل ہیں۔
جسٹس سرفراز ڈوگر کو بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کا عبوری چیف جسٹس مقرر کیا گیا ہے۔
عمران خان نے دلیل دی کہ یہ تبادلے شفافیت، مناسب مشاورت، یا عوامی مفاد کے جائز جواز کے بغیر کیے گئے ہیں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تبادلے عدالتوں کو ایگزیکٹو کے پسندیدہ ججز سے بھرنے کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس سے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
درخواست میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ تبادلوں نے ’ججوں کی سنیارٹی میں خلل ڈالا‘، جس میں نئے تبادلہ کیے گئے ججز کو مطلوبہ حلف اٹھائے بغیر، اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سمیت اہم عہدوں پر رکھا گیا۔
اس نے عدلیہ کی ادارہ جاتی سالمیت کو ’کمزور‘ کیا اور عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کو ختم کیا۔
درخواست میں آئینی سوالات اٹھائے گئے ہیں جن میں شفافیت اور مناسب عمل کی کمی بھی شامل ہے اور آیا ججز کے تبادلے بغیر کسی وجہ یا مدت کے صوابدیدی اور الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ عدالتی تبادلے واضح طور پر بیان کردہ مفاد عامہ کے جواز کے ساتھ کیے جانے چاہئیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی ’پاکستان کے جمہوری نظام کا سنگ بنیاد ہے‘، تبادلے ان ججز کو سزا دینے کے لیے کیے گئے جنہوں نے پہلے بیرونی دباؤ کے خلاف مزاحمت کی تھی اور میرٹ پر مقدمات کا فیصلہ کیا تھا، خاص طور پر جن میں خود عمران خان شامل تھے۔
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس عامر فاروق کی مثال دی گئی، جنہیں ان مقدمات سے خود کو الگ کرنے سے انکار کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں تقرری سے ’نوازا‘ گیا جن میں عمران خان ملزم تھے۔
درخواست میں متنبہ کیا گیا ہے کہ تبادلے کے غیر چیک شدہ اختیارات اہم عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے ججز کی من مانی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں اور اس طرح عدالتی غیرجانبداری پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے بانی نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ یکم فروری کے نوٹی فکیشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے اور مدعا علیہان کو عدالتی آزادی اور عدالتی تبادلوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جائے۔
مزید برآں، درخواست میں وزارت قانون کے یکم فروری کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کا جواز فراہم کرنے میں ناکامی نوٹی فکیشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی بناتی ہے۔