کارپوریٹ میڈیا اور سبالٹرن کلاس


گزشتہ دنوں لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے حوالے سے جانا ہوا جہاں اتفاق سے صحافت کی ڈگری میں حال ہی میں داخلہ لینے والے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ ان طالبعلموں سے میڈیا فریمنگ، ایجنڈا سیٹنگ جیسی اصطلاحات کو لے کر تبادلہ خیال ہوا۔ جب میں نے نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میڈیا ایجنڈا سیٹ کرتے وقت مزدوروں یا مزدور تحریک کو کیوں نظر انداز کر دیتا ہے تو ان سب کا جواب نفی میں تھا۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ ٹریڈ یونین کیا ہوتی ہے؟ تو سب نوجوان طالبعلم مسکرا دیے اور کہنے لگے میڈیا کی ہی کوئی نہ کوئی اصطلاح ہوگی، ابھی ہمیں نہیں پڑھائی گئی۔ لمحہ فکریہ تو یہ تھا کہ صحافت کے نوجوان طالبعلموں کو مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ تک کے بارے میں علم نہ تھا۔

ان طالبعلموں سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد مجھے صحافت کے عظیم استاد مرحوم ڈاکٹر مہدی حسن صاحب یاد آ گئے جنہوں نے ہمیں ماسٹرز میں پڑھایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا صحافت کے میدان میں 50 سال سے زائد کا وسیع تجربہ تھا اور تقریباً اتنے ہی سال وہ مختلف جامعات میں طالبعلموں کو صحافت کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرواتے رہے۔ ایسے میں انہوں نے ہمیں کلاس میں ہمیشہ یہی بتانے کی کوشش کی کہ کارپوریٹ میڈیا کیسے بورژوا کلاس کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا ہے۔

آپ کے پورے میڈیا، بشمول سینما و اشتہارات تک میں پرولتاریہ کلاس کی کوئی جگہ نہیں۔ حال ہی میں کامریڈ عامر رضا صاحب کی کتاب ”مارکس سے خائف لوگ“ کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ سرمایہ داری محض نظام پیداوار نہیں بلکہ ثقافتی سطح پر سماجی ری پروڈکشن بھی اس کا ایک اہم جزو ہے۔ کارپوریٹ میڈیا ایجنڈا سیٹ کرتے وقت مزدوروں کو بالکل نظرانداز کر دیتا ہے یا صرف اس وقت ہی مزدوروں کی خبر آتی ہے جب وہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی غیرملکی برانڈز کی کمپنیاں ان کی موت کا معاوضہ تک ادا نہیں کرتیں۔
مزدور تحریک کی خبر کچھ اس طرح میڈیا پر آتی ہے کہ مزدوروں کے احتجاج کے باعث اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک کا نظام درہم برہم، شہری رل گئے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اگر محنت کشوں کی خبر میڈیا پر آئے گی بھی تو منفی انداز میں۔ مزدوروں کی بنیادی تنخواہ کے بارے تک میں نہیں بتایا جاتا، جس کی وجہ سے عام لوگ تو کیا صحافت کے طالبعلم بھی اس سے لاعلم نظر آتے ہیں۔

اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مزدور، محنت کش اور کسان کارپوریٹ میڈیا کا کبھی موضوع نہیں رہے، اس کی تاریخ کافی پرانی ہے۔

اٹلی کے مارکسسٹ دانشور گرامچی نے 22 دسمبر 1916 میں اخبارات اور مزدور کے عنوان سے ایک آرٹیکل تحریر کیا، جس میں لکھا کہ بورژوا اخبارات میں جو کچھ شائع ہوتا ہے، اس کا مقصد صرف و صرف بالادست طبقے کو نوازنا ہے۔ میڈیا سادہ حقائق کو بھی ایسے پیش کرتا ہے جس کا فائدہ بورژوا کلاس اور نقصان پرولتاریہ کلاس کو ہوتا ہے۔ میڈیا کے مطابق ہڑتال محنت کشوں کی غلطی، اگر مظاہرہ ہے تو مزدور غلط۔ اپنے بنیادی حقوق مانگ لیے تو باغی۔

گرامچی کے لکھے گئے آرٹیکل کو تقریباً 107 برس بیت گئے لیکن میڈیا کی ایجنڈا سیٹنگ تھیوری میں محنت کشوں کو جگہ نہ مل سکی جس کی بنیادی وجہ سرمایہ داری نظام ہے۔

سینئر صحافی محمد ضیا الدین صاحب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ سابق صدر پرویز مشرف کا ڈان اخبار کے لئے انٹرویو کرنے گئے تو مشرف صاحب فائلز کا مجموعہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے، میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ ڈان اخبار کے ایڈیٹوریلز ہیں جو گزشتہ کچھ عرصے میں شائع ہوئے ہیں، مشرف صاحب کو سب سے زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ اوکاڑہ کے کسانوں کے متعلق جو ایڈیٹوریل ڈان میں لکھے گئے تھے وہ کسانوں کے حق میں کیوں تھے۔ ضیا الدین صاحب نے اہم نکتہ اٹھایا کہ مشرف دور میں جو نجی میڈیا چینلز لانچ کیے گئے وہ کیسے محنت کشوں اور سبالٹرن کلاس کی آواز بن سکتے تھے؟

مزید برآں، اگر ہم میڈیا میں مزدوروں کی خبر پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فیکٹریز میں لگنے والی آگ کو بھی کم ہی موضوع بنایا جاتا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ بلدیہ فیکٹری میں لگنے والی آگ انڈسٹریل حادثات کی تاریخ کا بڑا حادثہ تھا، میڈیا نے اس حادثے کے بعد انڈسٹریل قوانین کی ہونے والی خلاف ورزیوں کو بحث کا موضوع بہت کم بنایا، اس پر ہونے والی رپورٹنگ پر دہشتگردی کا بیانہ غالب آ گیا، یوں انڈسٹریل قوانین کی خلاف ورزیوں پر جو بحث ہو سکتی تھی جس سے قوانین مزید سخت کیے جا سکتے تھے، وہ موقع کارپوریٹ میڈیا نے ضائع کر دیا۔ اگر یہ واقعہ دنیا کے اور کسی مہذب ملک میں ہوتا تو یقینی طور پر ان نکات کی نشاندہی کی جاتی جس کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔

جامعہ پنجاب ہونے والے ایک پی ایچ ڈی تھیسز کے مطابق پاکستان کے نیوز چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز میں سے 87 فیصد روایتی سیاست پر ہوتے ہیں یعنی سبالٹرن کلاس کے بنیادی مسائل بشمول غربت، تعلیم، صحت اور چائلڈ لیبر پر کوئی بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔
جدید تر اس سے پرانی